اُردن اور مصر نے اسرائیل کی ’اجتماعی سزا دینے کی پالیسی‘ مسترد کردی
اردن کے شاہ عبداللہ اور مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے اپنے مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے غزہ کے محاصرے، لوگوں کو فاقہ کشی پر مجبور کرنے، یا مقامی افراد کو بے دخل کرنے سمیت اجتماعی سزا کی پالیسی کو مسترد کردیا ہے۔
اردن کی سرکاری نیوز ایجنسی پیٹرا نے جمعرات کو رپورٹ کیا کہ دونوں رہنماؤں نے قاہرہ میں ملاقات کے دوران غزہ کے باشندوں کو اُردن یا مصر میں زبردستی بے دخل کرنے کی کسی بھی کوشش کی مخالفت کی۔
اردن کے شاہ اور مصر کے صدر نے غزہ میں فوری جنگ بندی اور علاقے کا محاصرہ ختم کرنے، عام شہریوں کی حفاظت اور وہاں موجود رہائشیوں تک امداد پہنچانے کا مطالبہ دہرایا۔
دونوں رہنماؤں نے خبردار کیا کہ ’اگر اس جنگ کو نہ روکا گیا اور یہ پھیل گئی تو اس سے پورے خطے کا تباہی کی طرف جانے کا خطرہ ہے۔‘
اردن کی سرکاری نیوز ایجنسی پیٹرا کے مطابق شاہ عبداللہ اور عبدالفتاح السیسی نے غزہ کے بیپٹسٹ ہسپتال پر بمباری کو ایک خطرناک فعل قرار دیتے ہوئے معصوم اور نہتے شہریوں کے خلاف اس گھناؤنے جُرم کی مذمت کی۔
مذاکرات میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے دونوں ممالک کے مضبوط مؤقف اور دو ریاستی حل کی بنیاد پر فلسطینی عوام کے لیے اپنے جائز حقوق حاصل کرنے کی ضرورت پر بھی گفتگو کی گئی۔
’دو ریاستی حل کے مطابق 4 جون 1967 کو ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی ضمانت دی گئی تھی جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہوگا۔‘
اس سے قبل بدھ کو مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے کہا تھا کہ ’فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا جا سکتا۔‘
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق مصری صدر کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردوں کے ساتھ نمٹنے تک‘ فلسطینیوں کو اسرائیل کے صحرائے نیگیو میں جانے کی اجازت دی جائے۔‘
انہوں نے ’فلسطینیوں کی غزہ سے مصر جبری بے دخلی‘ کے خطرات سے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے ’فلسطینیوں کی مغربی کنارے سے اردن کی طرف جبری بے دخلی‘ کی مثال قائم ہوجائے گی۔
صدر السیسی جو مہاجرین کی غزہ سے مصر کے صحرائے سینا میں داخل ہونے کی اجازت دینے کے مطالبے کو مسترد کرچکے ہیں کا کہنا ہے کہ اس سے ’فلسسطینی ریاست‘ کے قیام کا مقصد ’ختم‘ ہو جائے گا۔‘
انہوں نے رپورٹرز کو بتایا کہ ’اگر ایسا ہوتا ہے تو میں مصری عوام سے کہوں گا کہ وہ باہر گلیوں میں نکل کر اس تجویز کو مسترد کرنے کا اظہار کریں۔‘
مصری صدر کا کہنا تھا کہ ’اگر اسرائیل فلسطینیوں کو بے دخل کرنا چاہتا ہے تو وہ فلسطین کے مسلح گروپوں کے خلاف اپنی کارروائی مکمل ہونے تک انہیں (فلسطینی مہاجرین کو) اپنے صحرائے نیگیو میں بھیج سکتا ہے۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’فلسطینی مہاجرین کو مصر بھیجنا خطرناک ہوگا، کیونکہ صحرائے سینا اسرائیل کے خلاف کارروائیوں کا مرکز بن جائے گا۔‘
یاد رہے کہ مصر اور اُردن پہلے دو عرب ممالک ہیں جو بالترتیب 1979 اور 1994 میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لے کر آئے اور اس کے بعد سے اسرائیلی اور فلسطینی حکام کے درمیان اہم ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔