اسرائیلی یرغمالیوں کی تلاش، غزہ پر امریکی ڈرونز کی پروازیں
امریکی کے دو سرکاری عہدیداروں نے کہا ہے کہ حماس کی جانب سے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے وقت یرغمال بنائے گئے افراد کی تلاش کے لیے غزہ میں ڈرونز اڑائے جا رہے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ میں دو سرکاری حکام کا تذکرہ کیا گیا ہے تاہم نام اور محکمے کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔
دونوں میں ایک عہدیدار نے بتایا ہے کہ امریکہ حماس کے پاس یرغمال افراد کی تلاش میں ہے اور اس حوالے سے دوسری کوششوں کے ساتھ ساتھ نگرانی کرنے اور معلومات اکٹھی کرنے والے ڈرونز سے بھی مدد لی جا رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ خود ایک ہفتے سے زائد دنوں تک ڈرون اڑاتے رہے ہیں۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ غزہ میں حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے 200 غیرملکیوں میں 10 امریکی شہری بھی شامل ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ حماس نے ان کو سرنگوں میں ایک وسیع نیٹ ورک میں چھپا کر رکھا ہوا ہے۔
اسرائیلی فوج نے جمعرات کے روز حماس کو نشانہ بنانے کے لیے غزہ سٹی کا محاصرہ کیا تھا جو پٹی کا بڑا شہر ہے تاہم ان کو اچانک گوریلا حملوں کا سامنا کرنا پڑا جو انہی سرنگوں سے کیے جا رہے تھے۔
غزہ کے شمالی حصے میں واقع یہ شہر اسرائیل پر ہونے والے حملوں کا مرکز بنا ہوا ہے جبکہ دوسری جانب اسرائیل نے اس علاقے میں اسلامسٹ گروپ اور اس کے ڈھانچے کو ختم کرنے کا عزم کر رکھا ہے اور شہریوں کو جنوب کی جانب جانے کا کہا گیا ہے۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ حماس کے جنگجوؤں کی جانب سے سات اکتوبر کو اسرائیل پر اچانک حملے شروع کر دیے تھے جس کے نتیجے میں ایک ہزار چار سو افراد ہلاک ہوئے جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی اور یہ ملک کی 75 سالہ تاریخ کا مہلک ترین دن تھا۔
غزہ کے محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ حماس کے حملوں کے بعد اسرائیل نے 23 لاکھ آبادی رکھنے والے علاقے پر شدید فضائی بمباری کے علاوہ زمینی حملے بھی کیے جن میں اب تک نو ہزار 61 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔