دبئی میں عالمی اشرافیہ کی 389 ارب ڈالرز کی پراپرٹی لیکس منظر عام پر آگئیں
17 ہزار پاکستانیوں نے 23 ہزار جائیدادیں خرید رکھی ہیں، پراپرٹی لیکس میں بااثرعالمی شخصیات، سیاستدان، ریٹائرڈ سرکاری افسران کی جائیدادیں شامل ،12سے زائد ریٹائرڈ جنرلز، ارکان اسمبلیوں کے نام بھی شامل ہیں
دبئی میں عالمی اشرافیہ کی 389 ارب ڈالرز کی پراپرٹی لیکس منظر عام پر آگئی ہیں، 17ہزار پاکستانیوں نے 23 ہزار جائیدادیں خرید رکھی ہیں، پراپرٹی لیکس میں بااثرعالمی شخصیات، سیاستدان، ریٹائرڈ سرکاری افسران کی جائیدادیں شامل۔ جیو نیوز کے مطابق انویسٹی گیٹو جرنلزم پراجیکٹ کے ذریعے دبئی میں عالمی اشرافیہ کی 389 ارب ڈالرز کی پراپرٹی لیکس منظر عام پر آگئیں ، پراپرٹی لیکس کے تحت سعودی شہریوں کی جائیدادوں کی مالیت 8.5 ارب ڈالرہے، 85 سو سعودی شہریوں نے 16 ہزار جائیدادیں خریدرکھی ہیں، برطانوی شہریوں کی جائیدادوں کی مالیت 10ارب ڈالر ہے، 19500برطانوی شہری 22 ہزار جائیدادوں کے مالک ہیں، بھارتیوں کی جائیدادوں کی کا اندازہ 17ارب ڈالر ہے۔
بتایا گیا ہے کہ بیرون ملک جائیدادیں خریدنے والے غیرملکیوں میں پاکستانیوں کا دوسرا نمبر، پاکستانیوں کی مجموعی پراپرٹیز کا 2.5 فیصد بنتا ہے، 17ہزار پاکستانیوں نے 23 ہزار جائیدادیں خرید رکھی ہیں۔ پراپرٹی لیکس میں بااثرعالمی شخصیات، سیاستدان، ریٹائرڈ سرکاری افسران اور ان سے وابستہ افراد کی جائیدادیں شامل ہیں، پراپرٹی لیکس میں ایک پولیس چیف، سفارتکار اور سائنسدان بھی شامل ہے۔
12 سے زائد ریٹائرڈ جنرلز کے نام بھی پراپرٹی لیکس میں شامل ہیں، مرحوم جنرل پرویزمشرف اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کا نام بھی شامل۔ 4 ارکان قومی اسمبلی، سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کے 6 ارکان اور سینیٹر فیصل واوڈا کا نام بھی شامل ہے، وزیراطلاعات سندھ شرجیل میمن اور ان کی اہلیہ کا نام بھی شامل ہے، پراپرٹی لیکس میں وزیرداخلہ محسن نقوی کی اہلیہ کا نام بھی شامل ہے، پراپرٹی لیکس میں حسین نوازشریف، صدر آصف زرداری کے تینوں بچوں بلاول بھٹو، بختاور اور آصفہ بھٹو کا نام بھی شامل ہے۔
دوسری جانب اعلان لاتعلقی کیا گیا کہ بین الاقوامی جائیداد کا مالک ہونا غیرقانونی نہیں، پاکستان سے باہر جائیداد کا مالک ہونا غیرقانونی نہیں، بیرون ملک کام کرنے والے بہت سے لوگوں کے پاس جائیدادیں ہیں، بیرون لوگوں نے جائیدادیں آمدن پر ٹیکس ادا کرکے خریدی ہیں، بیرون ملک خریدی گئی جائیداد کی قانونی حیثیت طے کرنامتعلقہ ملک کے ٹیکس حکام کا معاملہ ہے۔