عدلیہ کے خلاف پریس کانفرنس، فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹس جاری

پاکستان کی سپریم کورٹ نے سینیٹر فیصل واوڈا اور رُکن قومی اسمبلی مصطفیٰ کمال کو عدلیہ کے خلاف پریس کانفرنسز پر توہین عدالت کے شوکاز نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
جمعے کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے گزشتہ شام لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کے اختتام پر دونوں ارکان پارلیمنٹ کو نوٹس جاری کیے۔

بینچ کے دیگر دو ارکان میں جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس نعیم اختر شامل تھے۔

سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں سینیٹر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو 5 جون کو ذاتی حیثیت سے طلب کر لیا۔
عدالت نے پیمرا سے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنسز کی ویڈیو ریکارڈنگ اور متن طلب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو بھی معاونت کے لیے نوٹس جاری کیا۔
قبل ازیں ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے پیش ہوئے جن سے چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا انہوں نے پریس کانفرنس سنی ہے؟ کیا پریس کانفرنس توہین آمیز ہے؟
چیف جسٹس کے سوالات پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جو ویڈیو انہوں نے دیکھی اُس میں الفاظ میوٹ کیے گئے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اُن کے خلاف اس سے زیادہ گفتگو ہوئی ہے لیکن نظرانداز کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’برا کہنا ہے تو نام لے کر مجھے کہیں، ادارے کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ادارے عوام کے ہوتے ہیں، اداروں کو بدنام کرنا ملک کی خدمت نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’مارشل لا کی توثیق کرنے والوں کا کبھی دفاع نہیں کروں گا، بندوق اٹھانے والا سب سے کمزور ہوتا ہے کیونکہ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا، دوسرے درجے کا کمزور گالی دینے والا ہوتا ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’اگر انہوں نے کچھ غلط کیا ہے تو اس کی سزا دیگر ججز کو نہیں دی جا سکتی۔‘
بینچ کے سربراہ نے کہا کہ ’ایک کمشنر نے مجھ پر الزام لگایا سارے میڈیا نے اسے چلا دیا، مہذب معاشروں میں کوئی ایسی بات نہیں کرتا اس لیے وہاں توہین عدالت کے نوٹس نہیں ہوتے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ چیخ و پکار اور ڈرامے کرنے کی کیا ضرورت ہے، تعمیری تنقید ضرور کریں، فیصل واوڈا کے بعد مصطفی کمال بھی سامنے آ گئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں ہی افراد پارلیمنٹ کے ارکان ہیں تو ایوان میں بولتے، ایسی گفتگو کرنے کے لیے پریس کلب کا ہی انتخاب کیوں کیا؟ پارلیمان میں بھی ججز کے کنڈکٹ پر بات نہیں کی جا سکتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page

Adblock Detected

ڈیلی گلف اردو میں خوش آمدید براہ کرم ہماری سائٹ پر اشتہارات چلنے دیں ایسا لگتا ہے کہ آپ اشتہار روکنے کیلئے ایڈ بلاکر یا کوئی اور سروس استعمال کر رہے ہیں۔ ہم اپنی سائٹ کو چلانے کے لیے اشتہارات پر انحصار کرتے ہیں۔ برائے مہربانی ڈیلی گلف اردو کی سپورٹ کریں اور اشتہارات کو اجازت دیں۔