آئی سی سی اسرائیل اور حماس کے رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری پر کیوں غور کر رہی ہے؟
عالمی فوجداری عدالت (انٹرنیشنل کرمنل کورٹ) چیف پراسیکیوٹر کی درخواست پر جلد اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو سمیت اسرائیل اور حماس کے رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے پر غور کر رہی ہے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق عدالت کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بنیامین نیتن یاہو، وزیر دفاع یوو گیلنٹ اور حماس کے تین رہنما یحیٰ سنوار، محمد ضیف اور اسماعیل ہنیہ غزہ کی پٹی اور اسرائیل میں ’جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ذمہ دار ہیں
آئی سی سی کو 2002 میں دنیا کے سب سے گھناؤنے مظالم، جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم، نسل کشی اور جارحیت کے ذمہ دار افراد پر حتمی مقدمہ چلانے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
آئی سی سی کو تشکیل دینے کے لیے قانون 1998 میں روم میں اختیار کیا گیا تھا اور یکم جولائی 2002 کو اسے نافذ کیا گیا۔
انٹرنیشنل کرمنل کورٹ پولیس فورس کے بغیر مشتبہ افراد کی گرفتاری کے لیے رکن ممالک پر انحصار کر سکتی ہے۔
بنیامین نیتن یاہو نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ ’اسرائیل آئی سی سی کی طرف سے اپنے دفاع کے موروثی حق کو مجروح کرنے کی کسی بھی کوشش کو کبھی قبول نہیں کرے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگرچہ آئی سی سی اسرائیل کے اقدامات کو متاثر نہیں کرے گا لیکن یہ ایک خطرناک مثال قائم کرے گا
آئی سی سی کے 124 رکن ممالک نے روم سٹیٹیوٹ پر دستخط کیے ہیں جو اس کے اختیارات کو قبول کرتے ہیں۔
درجنوں ممالک نے جنگی جرائم، نسل کشی اور دیگر جرائم کے حوالے سے عدالت کے دائرہ اختیار پر دستخط نہیں کیے اور انہیں قبول نہیں کیا۔ ان ممالک میں اسرائیل، امریکہ، روس اور چین شامل ہیں۔
آئی سی سی اس وقت متحرک ہوتی ہے جب ممالک اپنی سرزمین پر جرائم کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے قابل یا تیار نہیں ہوتے۔
اسرائیل کا موقف ہے کہ اس کے پاس ایک کام کرنے والا عدالتی نظام ہے۔ کسی ملک کے مقدمہ چلانے کی اہلیت پر تحفظات نے ماضی میں عدالت اور انفرادی ممالک کے درمیان تنازعات کو ہوا دی ہے۔