یوکرین کو امریکی ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت، صدر پیوٹن کی خاموشی نے سب کو پریشان کر دیا
ماسکو: مزید دو ماہ کے لیے امریکی صدر کے عہدے پر براجمان جو بائیڈن کی جانب سے جاتے جاتے یوکرین کو امریکی ہتھیاروں کے روس کے اندر استعمال کرنے کی اجازت نے جہاں ایک طرف دنیا کو پریشانی میں مبتلا کیا ہے وہاں دوسری طرف روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی خاموشی نے بھی سب کو اچنبھے میں ڈال رکھا ہے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدر بائیڈن کے یوکرین کو روس کے اندر امریکا کی طرف سے فراہم کردہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے حملہ کرنے کی اجازت دینے کے فیصلے نے روس میں شدید ردعمل کو جنم دیا ہے، لیکن جو چیز واقعی اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ ولادیمیر پیوٹن کیا کہتے ہیں، لیکن اتوار کی رات انھوں نے کچھ نہیں کہا۔
لیکن روسی صدر پہلے ہی اس سلسلے میں بہت کچھ کہہ چکے ہیں، بی بی سی کے مطابق حالیہ مہینوں میں کریملن نے مغرب کے لیے واضح پیغام دیا: ’’ایسا نہ کریں، اپنے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کے استعمال پر عائد پابندیاں نہ ہٹائیں، کیف کو ان میزائلوں سے روسی سرزمین پر گہرائی تک حملہ کرنے کی اجازت نہ دیں۔‘‘
ستمبر میں صدر پیوٹن نے خبردار کیا تھا کہ اگر ایسا ہونے دیا گیا تو ماسکو اسے یوکرین کی جنگ میں نیٹو ممالک کی براہ راست شرکت کے طور پر دیکھے گا، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نیٹو ممالک روس کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔
اگلے مہینے ولادیمیر پیوٹن نے روسی ایٹمی نظریے میں آنے والی تبدیلیوں کا اعلان کیا، اور کہا کہ روس جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ اس کا بہت واضح مطلب تھا کہ یوکرین کو روسی سرزمین پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے حملہ کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔
بی بی سی نے لکھا کہ ’’ولادیمیر پیوٹن کی اگلی چالوں کا اندازہ لگانا کبھی بھی آسان نہیں رہا، لیکن انھوں نے اشارے چھوڑ رکھے ہیں۔ جون میں بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے سربراہوں کے ساتھ ایک میٹنگ میں پیوٹن سے پوچھا گیا تھا کہ اگر یوکرین کو یورپ کی طرف سے فراہم کردہ ہتھیاروں سے روس میں اہداف کو نشانہ بنانے کا موقع دیا جائے تو روس کیا ردعمل ظاہر کرے گا؟ صدر پیوٹن نے جواب دیا ’’سب سے پہلے ہم یقیناً اپنے فضائی دفاعی نظام کو بہتر بنائیں گے، ہم ان کے میزائلوں کو تباہ کریں گے۔‘‘