حکومت کی دھمکیوں کے باوجود زیادہ سے زیادہ خواتین کا حجاب پہننے سے انکار
ایران کے دارالحکومت تہران میں نصب بل بورڈز پر ایک ہی پیغام نمایاں ہے کہ خواتین کو اپنی ماؤں کی تعظیم میں سر ڈھکنا چاہیے لیکن اسلامی انقلاب کے بعد پہلی مرتبہ خواتین نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایران میں چند خواتین کا کہنا ہے کہ وہ آزادی اور اپنی بچیوں کے بہتر مستقبل کے لیے لڑ رہی ہیں، بہت برداشت کر چکے ہیں۔
تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے عوام پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا تو ایک مرتبہ پھراحتجاجی تحریک پھوٹ سکتی ہے۔
ایران میں اگرچہ مہسا امینی کی ہلاکت اور حجاب کے خلاف شروع ہونے والے مظاہرے بند ہو گئے ہیں لیکن چند خواتین کی جانب سے عوامی مقامات پر سر ڈھاپنے کی پابندی نہ کرنے نے اسلامی حکومت کے لیے ایک اور مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔
حکام نے لازمی حجاب کی پابندی نہ کرنے والی خواتین کو سروسز فراہم کرنے والے کاروباروں کو نہ صرف قانونی دھمکیاں دیں بلکہ کاروبار بھی بند کیے۔ پولیس اور عام افراد کی جانب سے ایئرپورٹ، ٹرین سٹیشن اور دیگر عوامی مقامات پر بھی خواتین کو خبردار کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ ڈرائیورں کو بھی دھمکی آمیز ٹیکسٹ پیغامات بھجوائے گئے جو حجاب کے بغیر خواتین کو اپنی گاڑی میں بٹھاتے رہے ہیں۔
لیکن زیادہ سے زیادہ خواتین کے حجاب مخالف تحریک میں شمولیت کے بعد حکومت کے لیے ممکنہ طور پر مزید دباؤ ڈالنا مشکل ہو سکتا ہے۔
23 سالہ ایرانی طالبہ شیرون نے سوال اٹھایا کہ اگر وہ حجاب پہنے بغیر کسی پولیس سٹیشن میں جاتی ہیں تو کیا اسے بھی بند کر دیں گے، توپھر یہ کاروباروں کو کیوں بند کرنا چاہتے ہیں۔
حکومتی دفاتر میں سر نہ ڈھانپ پر جانے والی خواتین کو کسی قسم کی سہولت فراہم کرنے سے منع کر دیا ہے۔
حال ہی میں ایرانی ایتھلیٹک فیڈریشن کے سربراہ ہاشم شیامی عہدے سے مستفی ہو گئے تھے جب شیراز شہر میں ہونے والی ریس میں چند خواتین نے حجاب کے بغیر حصہ لیا۔
حجاب کی پابندی کروانے کے لیے چند ایرانی علما نے فوج اور حکومت نواز ملیشیا بسیج کے اہلکاروں کو تعینات کرنے کا کہا ہے۔
پولیس کے مطابق عوامی مقامات پر نصب مصنوعی ذہانت والے کیمرے حجاب کے بغیر خواتین کی شناخت کر سکیں گے، جسے شناختی کارڈ پر موجود تصویر سے میچ کر کے ذاتی معلومات کا پتا لگایا جا سکے گا۔
تہران سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار احمد زید آبادی کا کہنا ہے کہ حجاب کے معاملے پر جاری لڑائی کی مرکزی حیثیت برقرار رہے گی جب تک مغربی ممالک اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے اور معاشی پابندیوں میں نرمی کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہوتا۔