سعودی دوست کو گاڑی میں زندہ جلانے والے کو پھانسی دیدی گئی
سعودی عدالت نے برکات بن جبریل الکنانی کو بندر بن طحہ القرہادی کے قتل کا مجرم قرار دیا تھا
سعودی عرب میں دوست کو گاڑی میں زندہ جلانے والے کو پھانسی دے دی گئی۔ سعودی گزٹ کے مطابق وزارت داخلہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایک سعودی شہری جسے اپنے دوست کو زندہ جلانے کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی، اس کو پھانسی دے دی گئی ہے، سعودی عدالت نے برکات بن جبریل الکنانی کو بندر بن طحہ القرہادی کے قتل کا مجرم قرار دیا تھا اور جنوری میں جدہ میں ایک پارکنگ میں ہونے والے بہیمانہ قتل کے چھ ہفتے بعد اسے موت کی سزا سنائی تھی، عدالت کی طرف سے سنائی گئی سزائے موت کو اپیل کورٹ اور سپریم کورٹ نے برقرار رکھا، بالآخر فیصلے کو نافذ کرنے کا شاہی حکم جاری ہوا۔
وزارت داخلہ نے اپنے بیان میں کہا کہ عدالت نے نوٹ کیا کہ مدعا علیہ متاثرہ کی مدد کرنے میں ناکام رہا جب وہ مدد کے لیے چیخا، یہ حقیقت واضح طور پر اس کی گہری مجرمانہ ذہنیت کو ظاہر کرتی ہے، وزارت داخلہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ قاتل منشیات کا عادی تھا اور اس کے پاس سے میتھیمفیٹامائن کی ایک مقدار قبضے میں لی گئی، الکنانی نے اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا کیوں کہ وہ نشہ آور چیز کھانے کے بعد پریشان ہو گیا تھا، ریاست ایسے وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف شریعت کی دفعات کے اطلاق میں کوئی نرمی نہیں دکھائے گی۔
بتاتے چلیں کہ سعودی عربین ائیرلائن کے 40 سالہ فلائٹ اٹینڈنٹ اور دو بچوں کے والد القرہادی کو ان کی کار میں زندہ جلا دیا گیا، یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب القرہادی نے الکنانی کے ساتھ دیرینہ تنازعہ طے کرنے کی کوشش میں اپنی گاڑی سڑک کے کنارے روک لی تھی، ان کے درمیان گرما گرم بحث ہوئی، جس کے بعد اس کے دوست نے سعودی پائلٹ کو پٹرول چھڑک کر آگ لگادی ، القرہادی کو مقامی ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ شدید جھلسنے کے باعث دم توڑ گیا۔
مقتول کے والد نے بتایا کہ قتل جدہ میں سدرن ہاؤسنگ پروجیکٹ کی پارکنگ میں ہوا، میرا بیٹا اپنی مہربانی کے لیے جانا جاتا تھا، وہ 20 سال سے سعودی عربین ایئر لائنز کے ساتھ کام کر رہا تھا اور وہ اپنی مہربانی اور حسن سلوک کے لیے جانا جاتا تھا۔ سیکیورٹی حکام نے مختصر وقت میں مجرم کو گرفتار کر لیا اور تفتیش کے بعد اس پر قتل، آتش زنی اور منشیات کے استعمال کے الزامات عائد کیے، اس شخص پر علاقے میں کھڑی چار کاروں کو جلانے کا بھی الزام تھا، اسے مقدمے کی سماعت کے لیے مجاز عدالت میں بھیج دیا گیا۔