امارات کے ہسپتال میں 3 سال سے بستر پر پڑے پاکستانی کی وطن واپسی
متحدہ عرب امارات کے ہسپتال میں 3 سال سے بستر پر پڑے پاکستانی کو وطن واپس بھیج دیا گیا، سماجی کارکن کی مدد کی پیشکش کے بعد ثاقب جاوید کو متحدہ عرب امارات کے ہسپتال سے ایئرلفٹ کر دیا گیا۔ گلف نیوز کے مطابق ایک پاکستانی تارک وطن جو ساڑھے تین سال سے متحدہ عرب امارات کے ایک اسپتال میں بستر پر پڑا تھا، ہسپتال اور متعلقہ حکام کے تعاون سے سماجی کارکن کی کوششوں کی بدولت وطن واپس لایا گیا ہے، 45 سالہ ثاقب جاوید کو گزشتہ ہفتے ان کی وطن واپسی کے انتظامات کرنے کے لیے سجاد ساحر کی انتھک کوششوں کے بعد ایئرلفٹ کیا گیا، پاکستان میں سرگودھا کے رہنے والے ثاقب کو 9 اپریل 2020ء کو ام القوین ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں دماغ سے متعلق ایک شدید بیماری کی وجہ سے وہ مفلوج ہو کر بستر پر پڑا تھا، اس کی بیماری کے بارے میں کورونا کے عروج کے دوران پتا چلا۔
سجاد ساحر نے بتایا کہ بغیر کسی درست ویزہ، پاسپورٹ یا دیگر قانونی دستاویزات کے اس کی وطن واپسی ایک بہت بڑا چیلنج تھا، میعاد ختم ہونے والی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے ثاقب کے پاس سرمایہ کار کا ویزہ تھا، مجھے لگتا ہے اس کا ایک چھوٹا سا کاروبار تھا جو بعد میں ختم ہوگیا، چوں کہ اس کا ویزہ میں سرمایہ کار کا درجہ تھا اس لیے اس کے لیے فنڈز حاصل کرنا شاید مشکل تھا اور اس طرح کی وطن واپسی کی خدمات میں شامل رضاکاروں کو قونصل خانے، عدالتوں، امیگریشن اور لیبر ڈیپارٹمنٹ سمیت مختلف اداروں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ثاقب کے معاملے میں میں نے ہسپتال اور خیراتی اداروں کے ساتھ مل کر کام کیا، دستاویزات پی آر او فیاض احمد کے تعاون سے ترتیب دی گئیں، پاکستانی قونصلیٹ کی جانب سے سفری دستاویز جاری کرنے اور پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی جانب سے اسٹریچر پر جانے والے مریض کو اڑان بھرنے کی سہولیات فراہم کرنے کے بعد بالآخر اسے گھر پہنچا دیا گیا، ایک مرد نرس کو اس کے ساتھ بھیجا گیا۔
معلوم ہوا ہے کہ ام القوین میں انڈین ایسوسی ایشن سے وابستہ ایک کمیونٹی رضاکار کے طور پر سجاد ساحر بستر پر پڑے اور فوت شدہ درجنوں افراد کو وطن واپس لانے میں شامل رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ "میں 28 سال سے متحدہ عرب امارات میں ہوں، میں ان لوگوں کی تعداد نہیں جانتا جن کی وطن واپسی میں مدد کی لیکن یہ سال میں کم از کم 20 کیسز ہونے چاہئیں، میری خدمات حاصل کرنے والوں کی اکثریت ہندوستانیوں کی ہے لیکن چونکہ میں تمام طریقہ کار کو جانتا ہوں اس لیے بعض اوقات ہسپتال کے حکام دوسرے ممالک سے بھی لوگوں کو وطن واپس لانے میں میری مدد لیتے ہیں”