ایران میں لاپتہ افراد: ’مجھے نہیں پتا میرے والد کہاں ہیں، شاید ان کے متعلق کوئی اچھی خبر ملے
دسمبر 2021 میں دو سال تک روپوش رہنے کے بعد ابراہیم بابائی نے ایران سے فرار ہونے کا فیصلہ کیا۔
57 سالہ سابق سیاسی قیدی اور اسلامی حکومت کے مخالف کو سمگلروں کا ایک گروہ ملا جس نے انھیں ترکی سے ملحقہ شمال مغربی سرحد کے پار لے جانے کا وعدہ کیا تھا۔
اس دوران ابراہیم اپنی بیٹی شیما کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے جو خواتین کے حقوق کی کارکن ہیں اور بیلجیئم میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ ابراہیم فون کے ذریعے اس گروہ کے ساتھ سفر کرتے ہوئے سرحد کے قریب ایک گاؤں میں پہنچنے تک اپنی بیٹی کے ساتھ رابطے میں رہے۔
شیما کا کہنا ہے کہ ’میرے ابو بہت گھبرائے ہوئے تھے اور بہت آہستہ آواز میں بات کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ تقریباً 25 افراد تھے جنھیں باڑے میں رکھا گیا تھا۔ انھوں نے مجھے سے وعدہ کیا تھا کہ جب وہ سرحد پار کر لیں گے تو مجھے کال کریں گے۔‘
لیکن انھیں اپنے والد کی کال پھر دوبارہ کبھی نہ آئی اور نہ ہی ان دوستوں نے کال کیا جنھیں اس نے ترکی کے مشرقی شہر وان میں اپنے والد کے وہاں پہنچنے پر خوش آمدید کہنے اور سمگلروں کو باقی رقم دینے کا کہا تھا۔
ان سمگلروں نے ابتدائی طور پر شیما کو بتایا تھا کہ ان کے والد ترکی کے شہر وان کے قریب سمگلروں کے ایک ساتھی کے گھر پر ہلاک ہو گئے تھے اور ان کی لاش ترکی کی پولیس کے قبضے میں ہے۔
لیکن کچھ دن بعد سمگلروں نے انھیں کال کی اور یہ دعویٰ کیا کہ ابراہیم بابائی کو دل کا دورہ پڑا تھا اور وہ ترکی کے سرحدی گاؤں اوزلپ میں ہلاک ہوئے اور ان کا کہنا تھا کہ انھیں وہیں دفن کر دیا گیا۔
شیما نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں صدمے میں چلی گئی اور مجھے کچھ دیر تک کچھ سمجھ نہ آئی پھر میں نے چیخ ماری اور چلائی ’ابا آپ کہاں ہیں؟‘
ترکی پولیس اور سرحدی گارڈز کے ساتھ ساتھ ترکی کے شہر وان اور اوزلپ کے ہسپتالوں، مردہ خانوں اور کونسلز کے حکام نے شیما کے خاندان کے وکیل کو بتایا کہ انھیں ابراہیم سے متعلق تفصیل کی کوئی لاش نہیں ملی اور انھیں یقین ہے کہ ابراہیم نے سرحد پار نہیں کی تھی۔
ابراہیم کے اہلخانہ نے ان کے لاپتہ ہونے کی رپورٹ ایران میں حکام کو بھی دی لیکن پولیس اور عدلیہ نے بغیر تحقیقات کیے ان کے مقدمات بند کر دیے ہیں۔